پیارے امی، ابو، چچا، تایا،ماموں،خالہ، پھپھو، دادا، دادی، نانا، نانی، اور تمام اہل خاندان

Hibah Ilyas
Letters for Black Lives
5 min readJun 10, 2020

--

درج ذیل مضمون ’لیٹرز فار بلیک لائوز‘ [یعنی سیاہ فام لوگوں کے لئے خطوط] کے خط عامہ کا اردو ترجمہ ہے۔ ’لیٹرز فار بلیک لائوز‘ ایک عوامی جدوجہد ہے جس کا مقصد ثقافتی طور پر موزوں امدادی ذرائع پر کام کرنا ہے جو مختلف زبانوں میں بھی میسر ہوں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان کے ذریعے ہماری کمیونٹی میں نسل پرستی کے خلاف، پولیس کے ہاتھوں تشدد، اور سیاہ فام لوگوں کے خلاف تفریق کے موضوعات پر مباحثہ اور تبادلہ خیالات جاری رہیں۔

آپ ادھر انگلش ترجمہ پڑھ سکتے ہیں۔

آج ہم آپ سے ایک اہم موضوع پرمخاطب ہیں۔

آپ لوگوں کے دوست احباب، آپ کے ساتھ کام کرنے والے یا جان پہچان والوں میں شاید سیاہ فام لوگ کم ہوں گے لیکن ہمارے ساتھ بہت ہیں۔ سیاہ فام لوگ ہماری زندگی کا بنیادی حصہ ہیں: وہ ہمارے دوست ہیں، پڑوسی ہیں اور وہ ہمیں اپنے خاندان کی طرح عزیز ہیں۔ ہم اُن کے لئے بہت فکرمند ہیں۔

پچھلے دنوں مینیسوٹا میں ایک گورے پولیس افسر نے جارج فلائڈ نامی ایک سیاہ فام شخص کو مار ڈالا۔ پولیس افسر نے دراصل اپنے گھٹنے سےفلائڈ کی گردن کو ۹ منٹ تک دبا کر رکھا جس کی وجہ سے اس کا دم گھٹ گیا حالانکہ فلائڈ کہے جا رہا تھا کہ اس سے سانس نہیں لی جا رہی۔ دو اور پولیس والوں نے پکڑا رہا اور اس سارے واقعہ کے دوران ایک ایشیائ افسرجو وہاں موجود تھا اس نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ پولیس کے ہاتھوں اس طرح مرنے والوں میں فلائڈ اکیلا نہیں ہے۔ اسی سال انڈیانا میں ڈریجان ریڈ، فلوریڈا میں ٹونی مکڈیڈ اور کینٹکی میں بریونا ٹیلر پولیس کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ اسی طرح جارجیا میں ایک سابق سراغ رساں نے احموڈ آربری کوجان سے مار ڈالا۔

بیشتر اوقات پولیس والوں کو سیاہ فام لوگوں کے قتل کرنے کی کوئی سزا نہیں ملتی چاہے میڈیا کتنا ہی ہنگامہ مچائے۔ ذرا سوچیے ایسے کتنے واقعات ہیں جو روشنی میں آتے ہی نہیں۔

یہ وہ خوفناک حقیقت ہے جس سے میرے سیاہ فام دوست ہر روز گزرتے ہیں۔

آپ شاید سوچ رہے ہوں گے: ہم بھی تو اقلیت ہیں۔ ہم بھی تو امریکہ خالی ہاتھ آئے تھے اور تفریق کے باوجود ہم نے اچھی زندگی قائم کی۔ تو پھر یہ سیاہ فام لوگ ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟

ہمارے نزدیک یہ معاملہ ذرا الگ ہے اور یہی بات آپ سے کرنی ہے۔ ہم یہ سب آپ کو صرف اس لئے بتا رہے ہیں کہ ہم آپ سے پیار کرتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ ہم سب اپنی سوچ کو بہتر کرسکیں۔

عام طور پر جب ہم باہر نکلتے ہیں تو دوسرے لوگ ہمیں مشکوک نظر سے نہیں دیکھتے۔ ہم یہ سوچ کر نہیں نکلتے کہ ہم آج گھر واپس لوٹیں گے یا نہیں۔ ہمیں یہ خوف نہیں ہوتا کہ اگر پولیس ہمیں روکے گی تو ہم مارے جا سکتے ہیں۔

لیکن ہمارے سیاہ فام دوستوں کے لئے یہ سب باتیں پریشانی کا باعث بن جاتی ہیں۔

امریکہ میں بیشتر سیاہ فام افراد ان لوگوں کی اولادیں ہیں جو غلامی کے باعث اپنی مرضی کے خلاف یہاں لائے گئے تھے۔ صدیوں سے فائدے کی خاطر ان کی برادریوں، خاندانوں، اور جسموں کا ملکیت کےطور پر استعمال کیا گیا۔ غلامی کے خاتمے کے بعد بھی حکومت نے ان کو ترقی کرنے نہیں دیابلکہ ان کو قانونی طور پر حصول تعلیم، گھروں اور کاروباروں کی ملکیت اور ووٹ دینے تک کے حق سے محروم رکھا۔ پولیس اور جیل خانے، جو کہ ماضی میں سیاہ فام غلاموں کی گشتی پولیس اور کاشت گاہوں کی موجودہ شکل ہیں، اس غیر مساواتی نظام کو جبراً نافذ کرتے ہیں۔ سیاہ فام افراد مسلسل ظلم اور زیادتی کے خوف میں رہتے ہیں جو کہ آج تک جاری ہے۔ ان کے ساتھ جبر ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے، بس شکل بدل گئی ہے۔

آپ کو شاید ۱۱ ستمبر، ۲۰۰۱ء کے بعد ہونے والے متعدّد پُرتشدد واقعات یاد ہوں جب ہماری برادری کو امریکہ میں دہشت گردی کی وبا کا قصوروار ٹھہرایا جا رہاتھا۔ ہمارے مندروں، مساجد اور گردواروں کو انہی گورے تشدد پسندوں نے نشانہ بنایا تھا جنہوں نے صدیوں سے سیاہ فام افراد کو ان کےحقوق سے محروم رکھا ہے۔

ہمارے معاشرے کے غیر منصفانہ نظام ہمیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کرتے ہیں، لیکن امریکہ کے سیاہ فام غلاموں کے لوگوں کی ہی کوششوں نے غیر منصفانہ امیگریشن اور نسلی علیحدگی کو ختم کر کے ہم سب کہ فائدہ پہنچایا ہے۔

گوکہ کچھ ترقی ہوئی ہے مگر یہ غیر منصفانہ نظام اب تک ہم پر حاوی ہےاور صدیوں سے ہماری حکومت بنا کسی سزا کے سیاہ فام لوگوں کو قتل کرتی آ رہی ہے۔

آج کل جو ہنگامے چل رہے ہیں، ان کے مناظر دیکھ کر آپ کچھ بے چین ہو رہے ہوں گے، مگر سوچئے کہ آپ کو کتنی تکلیف ہوتی اگر کوئی آپ کا اپنا پولیس کے ہاتھوں بے دردی سے مارا جاتا اور آپ کے احتجاج کرنے پر لوگ ایک انسانی جان کے ضیاع سے زیادہ اپنی چیزوں کو اہمیت دیتے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ وائرس کی وبا کے دوران احتجاج کرنے والوں کا غم کتنا شدید ہوگا۔تصوّر کریں کہ یہ ان کے لئےکتنی ہلکان کرنے والی جدوجہد ہے جو ان کے آباؤ اجداد بھی کر چکے ہیں۔

اس لئے ہم ’بلیک لائوز میٹر‘ [یعنی سیاہ فام جانیں بھی اہم ہیں]تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔

اس تحریک کی حمایت کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب بھی کوئی سیاہ فام لوگوں کی انسانی قدر و منزلت کی تذلیل کرے تو ہم اس کے خلاف اپنی آواز اٹھائیں، چاہے وہ شخص ہمارے خاندان کا ہی کیوں نہ ہو۔

ہماری خاموشی ناقابل قبول ہے۔

ہمیں اپنی برادری میں پیوست ذات پات کے نظام اور نسل پرستی پر سوال اٹھانا چاہیے کیوں کہ ان کی وجہ سے امریکہ اور ہمارے اپنے ممالک میں سیاہ فام جانوں کو بے حد نقصان پہنچا ہے۔

آپ نے اس ملک میں جن مشکلات کا سامنا کیا ہے اور جوقربانیاں دی ہیں، ہم ہمیشہ ان کے لیے آپ کے احسان مند رہیں گے۔ ہم سب پر یہ الزام ہے کہ ہم اس ملک میں غربت، امراض، دہشت گردی، اور جرائم لانے والوں میں سے ہیں مگر آپ لوگوں نے اس تعصب سے بھرے امریکہ کا سامنا کیا ہے تاکہ ہماری زندگی بہتر ہو سکے۔

آج کی اس ہنگامی صورت حال سے یہ بات اور بھی واضح ہوگئی ہے کہ ہم سب اس کا شکار ہیں اور ہم اس وقت تک اپنے آپ کومحفوظ نہیں سمجھ سکتے جب تک ہمارے سیاہ فام دوست، ہمارے پڑوسی اور ہمارے عزیز محفوظ نہ ہوں- جس دنیا کی ہمیں جستجو ہے وہ ایسی جگہ ہے کہ جہاں ہم سب بلا خوف رہ سکیں۔ یہ ہے وہ مستقبل جو ہم چاہتے ہیں اور امید ہے کہ آپ سب بھی ایسا ہی چاہتے ہوں گے۔

،بہت امید اور پیار کے ساتھ

آپ کے بچے

مترجم

اشہد قریشی

ادیبا تلکدر

تمثال مسعود

ھبہ الیاس

--

--